۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 392998
5 ستمبر 2023 - 15:36
حرم عباس

حوزہ/ حضرت عباسؑ صاحبٍ علم و عرفان اور صاحب روحانیت و معنویت بھی ہیں۔ ان کے فضائل و  کمالات اور ان کے مراتب و مناقب کے بارے میں مختلف معصومین کی شہادتیں موجود ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حضرت عباسؑ کی ہیبت کا عالم دیکھ کر
آئیں جب فوجیں مقابل میں ہراساں ہوگئیں

حضرت عباس علیہ السلام مظہر العجائب اور معجز نما کے لخت جگر، قمر بنی ہاشم، فخر عجم، زینت عرب، حمزہؑ کا رعب، شوکت جعفرؑ طیار، علیؑ کی آن، حسنؑ کی شان، حسینؑ کی جان وفا کی عظمت کا نشان، صف شکن، تیغ زن، شجاعت کے تاجدار، کرامت کے سردار، عبادت گزار، صبر کے پیکر، فرزند صاحب ذو الفقار، برادر شہؑ ابرار، ام البنین کے لال، حیدرؑ کا جلال، زینبؑ کا آسرا اور علمدار لشکر دشت کربلا ہیں۔ آپؑ کی تاریخ ولادت 4 شعبان، 26 ہجری یوم شہادت شنبہ اور مقام ولادت مدینہ منورہ ہے۔ آپؑ کی شہادت 10 محرم الحرام 61 ہجری میں حمایت اسلام میں کربلا میں ہوئی۔

ہم سب کے آقا، چھوٹے حضرت، پیکر وفا، حضرت عباس علیہ السلام کے مراتب عالیہ کا انداہ لگانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ان شہدائے کربلا میں علمدار کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر تو ائمہ معصومین علیہم السلام سلام بھیجتے رہے، جن کی زیارت کا حکم وہ اہل ایمان و مودت کو دیتے رہے اور جن کی زیارت میں یہ کلمہ بھی آیا کہ
"اے کربلا کے شہیدوں، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔" علمدار حسینی سے کرامات عظیمہ کا ظاہر ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہ تو ان کے عنداللہ مراتب عالیہ اور درجات رفیعہ کا معمولی تقاضا ہے۔ کیونکہ ان کی کرامت سے نہ صرف یہ کہ آپؑ کے برادر، سید الشہداء کی عظمت و حقانیت ظاہر ہوتی ہے بلکہ پورے خاندان رسالت و امامت کی عظمت و حقانیت کا ظہور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عزاداران شہدائے کربلا، زائرین کرام، مقررین، ذاکرین، خطبا اور علماء کرام، خدام صاحبان کے مطابق روضہ علمدار سے جتنی کرامات آئے دن ظاہر ہوتی رہتی ہیں اتنی خود سرکار سید الشہداء کے روضہ مبارک سے ظاہر نہیں ہوتیں۔
غازی کے ارادے میں الٹ پھیر نہیں ہے
عباسؑ کے آنے میں بس اب دیر نہیں ہے
ہیں شیعہ علیؑ سب پہ زبردست رہیں گے
عباسؑ کے نام میں بھی زیر نہیں ہے

حضرت عباس علمدار کے کردار کا کیا کہنا۔ عبداللہ ابن ابی محل جناب ام البنین کا بھتیجہ تھا جس کا شمار رؤسائے کوفہ میں ہوتا تھا۔ ابن زیاد سے امان لکھوا کر اپنے غلام کرمان کے ہاتھوں کربلا میں جناب عباسؑ کو بھیجوایا تھا۔ جناب عباس نے جو اس امان نامے کا جواب دیا ہے وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے ماموں زاد بھائی سے ہمارا سلام کہہ دینا اور یہ کہنا کہ ہم کو اس امان نامہ کی ضرورت نہیں۔ امان اللہ خیر من امان ابن سمیہ۔ یعنی ابن زیاد کی امان سے اللہ تعالٰی کی امان کہیں زیادہ ہہتر ہے۔ یہ ہے عظیم کردار کی بات۔ شب عاشور بھی امام حسین علیہ السلام نے سبھی رفقاء کے ساتھ عباسؑ پر سے بھی بیت اُٹھا لی تھی لیکن حضرت عباسؑ نے کہا "خدا ہمیں وہ روزٍ بد نہ دکھائے کہ ہم آپ کے بعد زندہ رہیں۔ ستر بار بھی موت آجائے اور زندہ کئے جائیں تو ہمارا یہی ہوگا۔" اسی طرح روز عاشور بھی آپ کو اس کا موقعہ اور امام عالی مقامؑ نے یہ فرما کر دیا۔ "اگر عباس تم دشمن کے لشکر میں چلے گئے تو زینب کے سر سے رٍدا اتارنے کی کسی میں جرآت نہ ہوگی۔ لیکن جناب عباسؑ نے اس وقت بھی عجیب جواب دیا۔ "آقا آج ہی کے دن کے لیے تو والدہ ماجدہ نے میری پرورش کی تھی اور شیر خدا نے بھی یہ وعدہ لیا تھا کہ اپنے بھائی حسینؑ کا ساتھ نہ چھوڑنا۔"

حضرت عباس علیہ السلام نے جیسا نامور پدر بزرگوار پایا اس کے مقام کے تعین میں 1400 سو سال علماء، حدیث، تفسیر، کلام، فقہ، ادب و حکمت کوشاں ہیں اور ان کا سفر ابھی منزل کی تلاش میں ہے۔ حضرت عباسؑ کو اپنے بےنظیر باپ سے بہت صفات وراثت میں ملیں۔ ان صفات نمایاں ترین صفات قائد کے ساتھ حیرت ناک فداکاری اور بے مثال اطاعت و جاں نثاری تھیں کہ حضرت علی علیہ السلام جس طرح رسولٍ اکرم ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ حضرت عباسؑ اسی طرح امام حسینؑ کی قیادت میں اپنی زندگی کو قربان کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔

علیؑ اور ابن علیؑ عباسؑ کا کردار میں یکسانیت ہے۔ علیؑ شمع رسالت کے پروانے اور عباسؑ شمع امامت کے محافظ، دونوں نے اپنی زندگیوں میں رسالت اور امامت کو دشمنانٍ اسلام کے شر سے محفوظ رکھا۔ بیٹا تو اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ امامت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں کو کٹوا لیا اور امامت کی شمع پر جان نثار کر دی۔
دریائے وفا کے شناور ہیں عباسؑ
لاکھوں میں ہیں بے مثل دلاور عباسؑ
ٹل جائے ہر ایک بلا بہ فیض شبیرؑ
ہو جائیں اگر کسی کے یاور عباسؑ

حضرت عباس علمدار کی شخصیت کو فضیلت کے آئینے میں دیکھنے کے لیے آپؑ کے القاب کے معنی و مفہوم جاننا ہوگا۔ پہلا لقب 'ابوالفضل' جس کا مطلب ہے بہت سے فضیلتوں کا حامل۔ دوسرا لقب ہے 'ابوالقریہ' جس کا معنی ہے سقائ کرنا۔ آپؑ کے مشہور القاب میں 'قمر بنی ہاشم' ہے۔ چونکہ آپؑ کی شکل تاریک شب میں مثل چاند چمکتی تھی۔ آپؑ کا چہرہ دلکش اور صورت زیبا تھی۔ 'عبد صالح' لقب کے حوالے سے مقاتل السطابین میں روایت ہے کہ "بین عینیہ اثر السجود" ان دونوں آنکھوں کے درمیان سجدہ کا نشان تھا۔ آپ کی زیارت کی السلام علیک ایھا العبدالصالح المطیع اللہ و رسولہ و لامیرالمومنین والحسنؑ والحسینؑ۔ 'المواس' یعنی امام حسین پر قربان ہوئے اور اپنے دونوں بازو کٹائے۔ آپؑ کو الفادی' بھی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے فدا کار اور یہ کربلا میں اظہر المنشمس ہے۔

حضرت عباس علمدار کو 'اطامی' لقب سے بھی جانتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں حمایت کرنے والا اور پشت پناہی کرنے والا۔ 'الواقی' جس کا معنی و مطلب کربلا کے میدان میں حضرت عباسؑ کے ہر عمل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کا معنی ہے نگہبان و محافظ۔ عباسؑ جہاں لشکر کے سردار، پیاسوں کے شقا ٕ تھے وہاں مخدرات عصمت کے خیموں کے محافظ تھے۔ 'الساعی' کا لغوی معنی ہے خدمتگار۔ آپؑ امام حسین علیہ السلام کی مخدرات عصمت اور بچوں کی خدمت کرنے کی ہمیشہ تلاش و جستجو میں رہتے تھے اور جب تک خدمت انجام نہیں دے دیتے تھے تب تب تک انھیں چین و سکون نہیں آتا تھا۔

عزادارانٍ کربلا حضرت عباس علمدار کے لقب 'باب الحوائج' سے بخوبی واقف ہیں لیکن کیا واقعی میں یہ ان کے کردار سے عیاں ہے۔ جب عزادار اس سطر کو پڑھیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ آخر آپؑ کو باب الحوائج کیوں کہتے ہیں؟ جس طرح سے حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ رحمت العالمین کے دربار کے باب الحوائج تھے اسی طرح حضرت عباسٍ باوفا سید الشہداء، حضرت امام حسین علیہ السلام کے دربار کے باب الحوائج تھے۔ آپؑ امام حسین علیہ السلام کے نمبر ون وزیر تھے۔ تمام امورٍ زندگی اور معاملاتٍ ملی عباسؑ کے توسل سے طے کئے جاتے تھے۔

گیارہواں و آخری لقب 'حامل اللوا ٕ' کا معنی ہے لائق۔ اس خوبی کو حضرت عباسؑ میں ہر موقع پر ان کے کردار وعمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی اپنی گنتی کی فوج کا مقابلہ ایک بےشمار لشکر سے تھا۔ عَلم اپنے بھائی، عباسؑ کو دیا جو سب سے قوی اور بہادر تھے۔ حضرت عباسؑ قلب لشکر میں عَلم لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے بھائی کی نصرت میں اپنی جان قربان کر دی۔ اس فداکاری سے آپؑ کو علمدارٍ دشت کربلا بھی کہتے ہیں۔

دریائے وفا کے شناور ہیں عباسؑ
لاکھوں میں ہیں بے مثل دلاور عباسؑ
ٹل جائے ہر ایک بلا بہ فیض شبیرؑ
ہو جائیں اگر کسی کے یاور عباسؑ

حضرت عباسؑ صاحبٍ علم و عرفان اور صاحب روحانیت و معنویت بھی ہیں۔ ان کے فضائل و کمالات اور ان کے مراتب و مناقب کے بارے میں مختلف معصومین کی شہادتیں موجود ہیں۔ اُن کی عظمت و برتری کا مسلم ہونا یقینی ہے اور انھیں مالک کی طرف سے کرامت و امتیاز کا عطا ہونا عجیب و غریب بات نہیں ہے۔ واقعۂ کربلا سے آج تک کی تاریخ پر نظر رکھنے والا انسان جانتا ہے کہ عباسؑ امام علی علیہ السلام کی نماز شب کا ثمر ہے۔ اور کربلا کا خاص اہتمام و انتطام بھی۔ ان کا صبر اور ہر عمل امام حسین علیہ السلام کی فکر و پیغام کا مکمل ترجمان ہے۔ عزادار علمدار کے علم مبارک اُٹھائیں اور ان کے کردار کو اپنائیں یہی حقٍ وفا سوگورانٍ باوفا حضرت عباسؑ کی ادائیگی ہے۔

جب زبان پر کبھی آجاتا ہے عباسؑ
دیر تک ہونٹوں سے خوشبوئے وفا آتی ہے


تبصرہ ارسال

You are replying to: .